Mchoudhary

Add To collaction

کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری

                           قسط 13

                          ••••••••••••••••
آسمان میں گھنے روئی جیسے بادلوں میں چاند آنکھ میچولی کھیل رہا تھا.."ہلکی ہلکی چاند کی روشنی ،تیز خوش کن ہوائیں چل رہی تھی اور رات کے دو بج رہے تھے" وہ ٹریس پر کھڑی آسمان کو دیکھ رہی تھی"چاند کی روشنی اُسکے سوہنے مکھڑے کو اور پر نور بنا رہی تھی "بلاشبہ اللہ نے اُسکی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ نور بھی بہت دیا تھا.."سوجھی ہوئی آنکھیں ،بکھرے ہوئے بال بے ترتیب سا حلیہ ،اُجڑی ہوئی حالت میں وہ آج بغیر حجاب کے کھڑی اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ آج بہت ٹوٹ چکی تھی..بابا آپ دیکھ رہے ہیں نہ"" اب آپکی بیٹی غموں کو سہنا سیکھ گئی.." میں نے آج اپنے ہاتھوں سے خود اپنی زندگی کو روگ بنا دیا" بابا میں بہت اکیلی ہو گئی ہوں بہت زیادہ..."لیکن بابا آپکی بیٹی نے آپکا وعدہ نہیں توڑا.." م میں جب تک اپنی زندگی میں خوشی نہیں آنے دوں گی" جب تک آپکا وعدہ پورا نہیں کر دوں .." لیکن بابا م میں مر جاؤں گی.."بابا میرے پاس اب کچھ نہیں بچا کچھ بھی تو نہیں..." میرے پاس صرف ایک دل تھا " اور وہ بھی اب کسی اور کا ہو کر رہ گیا...."بابا آپکی بیٹی صرف اور صرف ایک زندہ لاش بن کر رہ گئی..." بابا آپ سے زیادہ محبّت کو کون جانتا ہوگا.." میں منہال سے بہت محبّت کرتی ہوں بہت زیادہ اللّٰہ...................... وہ بے تحاشہ رو رہی تھی ..میں مر جاؤں گی میں مر جاؤں گی......"بابا اگر میں اسکا نہیں ہو سکتی تو میں اپنی زندگی میں کسی اور کو بھی شامل نہیں کر سکتی ....." بابا ا آپ سمجھ رہے ہیں نہ....." بابا آپ سن رہے ہیں نہ....."مجھے پتہ ہے آپ اپنی بیٹی کی بات سن بھی رہے ہے اور سمجھ بھی رہے ہیں.." لیکن بابا یہ یہ لوگ نہیں سمجھتے مجھے.." ان لوگوں نے تو مُجھسے پوچھنا تک گوارا نہیں سمجھا....." میں کیسے بتاؤں کہ میں اس شخص کے بغیر نہیں جی سکتی...." میری محبّت ادھُوری رہ گئی.." بابا میں خالی ہاتھ رہ گئی.." بابا آپکی پرنسز اُجڑ گئی ہے......" بابا آپ کیوں چھوڑ کر چلے گئے........" میرا دل فٹا جا رہا ہے م میں اسکا سر چکرانے لگا تھا...." ب بابا م اُسکی زبان سے لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہو رہے تھے.... ہاتھ سے ڈائری چھوٹ کر فرش پر گر گئی تھی.... آں ں ں ں.... اُسکے سر میں درد کی شدید لہر اٹھی تھی...." م میں نہیں ر رہ سکتی ...."وہ لڑکھڑائے.... میں منہال کے بغیر ن نہیں رہ س وہ چکرا کر زمین بوس ہونے والی تھی..." جب دو مضبوط بازوؤں نے اسکو تھاما تھا... مائشا کی آنکھیں بند ہونے کو تھی جب اس نے اس شخص کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن اس شخص کا چہرہ اسکو دھوندلاتا نظر آ رہا تھا جب بھی اسکو کچھ کچھ منہال کا عکس نظر آیا تھا۔۔۔ اور وہ زبان سے بھی وہ کچھ بڑبڑا رہی تھی...اس شخص نے اپنے چہرا اُسکے چہرے کے نزدیک کیا تھا " تاکہ وہ مائشا کی بات سن سکے"ب بابا م منہال س سے محبّت ک کرتی ہوں " وہ بمشکل ہی اُسکے الفاظ سن سکا تھا...."مائشا اس شخص کی بازوؤں میں جُھول گئی تھی.. منہال کو بہت خوشی ہوئی تھی .." یہ سن کر ۔۔۔لیکن پھر بھی سوچ کے دائرے بہت رنگ ہوتے جا رہے تھے ۔۔۔اس نے اپنی سوچ کو ایک طرف جھٹکا تھا" اور پھر منہال نے مائشا کو بازوؤں میں اٹھایا اور اسکو ٹریس پر سے اندر روم میں لا کر احتیاط سے بیڈ پر لٹا دیا اور اس پر کمفرت ڈال کر وہیں بیڈ پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔مائشا کے چہرے پر ابھی بھی آنسووں کے نشان تھے..." منہال نے اپنا ہاتھ اُسکے چہرے پر سے بال ہٹانے کو بڑھایا تھا." اور پھر وہ تھوڑا سا جھکا تھا.....طریقہ غلط ہے " پر اسکے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے.." بہت دیکھ لیے تم نے دکھ ."اب اور نہیں" زندگی منہال"تم میرے لئے اتنی ہی ضروری ہو جتنی کہ" جسم میں روح"میں سوچ بھی نہیں سکتا تم سے الگ ہونا کا..." ہاں مجھے تھوڑا درد یہاں پر ضرور ہوا تھا تمہارے الفاظوں..اس نے اپنی دل کی طرف اشارہ کرتا مائشا کے بے ہوش وجود کو بتایا تھا..." پھر بھی میں اُمّید نہیں ہارا تھا.." کیونکہ تم نے ہی تو مجھے اس رب پر یقین کرنا سکھایا ہے...." اگر تم میرے بغیر نہیں رہ سکتی تو یہ منہال بھی تمہارے بغیر ادھورا ہے....."میں نہیں جانتا تم نے ایسا کیوں بولا کہ تمہاری شادی ہونے والی ہے...؟ لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں تم صرف اور صرف میری ہو۔۔اپنے منہال کی اور یہ منہال کا وعدہ ہے میں بھی ہمیشہ سے تمہارا تھا ،ہوں اور رہونگا اپنی آخری سانس تک...مائشا منہال کی زندگی.." میری محبّت میں میری زندگی تو جا سکتی ہے.." لیکن تمہاری محبّت میرے دل سے کبھی نہیں جا سکتی کیونکہ
       *"اور کوئی اب دل میں نہیں آئے گا
            بس ختم کر دی ہے محبّت تم پر
           عشق کا راستہ تو اپنا سکتا ہوں
       لیکن تم سے کبھی منہ نہیں موڑ سکتا"*
ملیحہ( مجیبہ)چودھری
خوش رہو ہمیشہ آج منہال سلمان شاہ تم سے ایک وعدہ لیتا ہے۔۔" تمہاری زندگی کا ہر دکھ اپنے سر لیتا ہوں تمہارا کھویا ہوا سب کچھ میں تمہاری زندگی میں لے آؤں گا.....منہال نے مائشا کا ہاتھ پکڑ کر اس پر بوسہ دیا اور پھر وہ وہی سے چلا گیا جہاں سے وہ آیا تھا ۔۔۔۔۔۔
**********************
شاہ حویلی»»»»»»»
طلوع ہوتے سورج کی کرنیں شاہ حویلی کو ایک نئی چمک بخش رہی تھی..." آج شاہ حویلی میں سب بہت خوش تھے.." کیونکہ اس ہفتے سے شاہ حویلی میں شہنائیاں گونجنے والی تھی..." حویلی میں ملازم ادھر سے اُدھر چکر کاٹتے نظر آ رہے تھے.." کوئی حویلی کی صفائی کر رہا تھا تو کوئی اُسکی دروں دیواروں کو ڈیکوریٹ کر رہا تھے..."صائمہ بیگم آج بہت خوش نظر آ رہی تھی.." سب کے لیے حیرت کا باعث تھا.." وہ حویلی سجانے والوں کو انسٹرکشنز دے رہی تھی.." اور باقی سب لاؤنج میں بیٹھے صبح کی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے" شہزین شاہزیب دونوں آفس چلے گئے تھے" شادی کے دن قریب تھے " اس لیے پوری فیملی اکھٹا ہوئی تھی" نور بھی ہوسٹل سے آج آنے والی تھی.." عالیان کو ابھی کسی نے نہیں بتایا تھا شادی کے متعلق." بی جان میں سوچ رہا ہوں کیوں نہ ہم مدیحہ کے گھر چلے شہزین کا رشتہ لے کر " کیونکہ منہال کی ماما نے اجازت دے دی ہے.." اور پھر نکاح کی تاریخ بھی اس دن کی ہی رکھ لیں گے" جس دن شاہزیب کا نکاح ہے.." کیوں بھائی میں صحیح بول رہا ہوں نہ.." ملک شاہ نے اپنی بات بول کر حسن شاہ سے پوچھا تھا.." ہاں ارادہ تو درست ہے تمہارا..کیوں بی جان..؟ حسن شاہ نے ملک شاہ کے ہاں میں ہاں ملائی تھی.." بیٹا جیسے تمہاری مرضی.." ٹھیک ہے پھر میں اُن لوگوں کو آج شام کا ہی بول دیتا ہوں.." نکاح میں دن ہی کتنے رہ گئے ہے...." ملک شاہ نے سامنے ٹیبل پر رکھا فون اٹھاتے بولا تھا اور پھر منہال کے گھر کا فون ملایا.." دو تین بیل پر کال اٹھا لی گئی تھی.." السلام وعلیکم ...ملک شاہ نے سلام کی۔۔۔۔۔اُنہونے اُن کی خیریت دریافت کرنے کے بعد اصل بات پر آئے تھے.." بھابی جی ہم آج شام مدیحہ بیٹی کو دیکھنے آ رہے ہیں.." دوسری طرف سے ہاں بول دی گئی تھی..." اور دو تین باتیں کرنے کے بعد ملک شاہ نے کال کاٹ دی تھی.."ملک بیٹا آج مائشا ابھی تک روم سے باہر نہیں آئی.. وہ تو سب سے پہلے ہی اٹھ جاتی ہے.. دادو نے اپنے دونوں بیٹوں کی طرف دیکھ کر حیرت سے کہا تھا..." ہاں بی جان..." لیکن وہ تو اتنی دیر نہیں سوئی کبھی..." حسن شاہ نے بھی بی جان کی بات سے متفق ہوئے تھے...ارے رحیل بیٹا یہاں آؤ.."بی جان نے ایک ملازمہ کو آواز دے کر اپنے پاس بلایا.." جی بی جان ملازمہ آ کر بولا.." بیٹا جاؤ مائشا بی بی کو دیکھو وہ ابھی تک نیچے کیوں نہیں آئی...؟ دادو نے رحیل کو حکم دیا.." جس پر ملازمہ گردن ہلا کر مائشا کے روم کی طرف چلی گئی تھی۔۔۔رحیل نے جا کر مائشا کے روم کا دروازہ نوک کیا تھا.." ٹک ٹک ٹک......... ایک بار نہیں دو بار بھی نہیں کئی بار رحیل نے دروازہ کھٹکھٹایا تھا.." لیکن اندر سے کوئی رسپانس نہیں آیا ..." اب کی بعد رحیل نے دروازے پر ہلکا سا دباؤ دیا تھا..." جو وہ کھلتا چلا گیا...." رحیل نے اندر جھانک کر دیکھا اور پھر روم میں آ گئی سائڈ سے روم کِ لائٹ آن کیا " چاروں طرف نظریں جمائے ." اور بیڈ کِ طرف بڑھ گئی " جہاں مائشا " سو رہی تھی.." بلکہ بخار سے تپ رہی تھی... مائشا بی بی جی مائشا بی بی جی اٹھے آپ کو بی جانِ بلا رہی ہے"رحیل نے جیسے ہی مائشا کو جگانے کے لیے اسنے اسکو چھوا تھا " وہ کرنٹ کھا کر پیچھے کو بدکی تھی.." ہائے اللھ ان کو تو بہت تیز بخار ہے...." وہ الٹے پاؤں بھاگی تھی....." بی جان بی جان ....... وہ ہانفتی ہوئی نیچے آئی .." اُسکے یوں چلّانے پر سب نے پریشانی سے رحیل کی طرف دیکھا تھا.." ارے کیا ہوا..؟ جو یوں ہافتی ہوئی اس رہی ہو... " بی جان نے اسکو لتاڑا تھا.....بی جان و وہ ... اس سے سانس پھولنے کی وجہ سے بولا نہیں جا رہا تھا......" ٹھہر کر بتاؤں .." رحیل نے ایک لمبی سانس لی اور پھر بولی " بی جان مائسا بی بی بخار سے تپ رہی " انکو بہت تیز بخار ہے......." اُسکی بات کو سن کر دادو اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی تھی...." اور پھر وہ اپنی لاٹھی سنبھالتی مائشا کے روم کِ طرف چلی گئی تھی " اور انکے پیچھے حسن شاہ اور ملک شاہ بھی تھے......
************************
منہال گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا.."مائشا کے بولے گئے الفاظ اُسکے دماغ میں ہتھوڑے کے ماند برس رہے تھے.."دل پھٹنے کو تھا.."آنکھیں اشک بار تھی.میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے.." ہر بار ہر بار میں ہی کیوں اتنی ازیت سہتا ہوں.." اور کوئی کیوں نہیں..." میں نہیں چھوڑ سکتا.." جب تک میری سانس میری وجود میں ہے تب تک تو بلکل بھی نہیں...." اسنے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی"اور اسٹیئرنگ کو مضبوطی سے تھام لیا.."مجھے اس کا جواب ضرور لینا ہے.." کہ مائشا نے شادی سے انکار کیوں کیا..."اس نے گاڑی کو ایک سائیڈ روک دی تھی اور اپنا سر اسٹیئرنگ پر سر جھکا لیا تھا۔۔۔میں نہیں ہونے دے سکتا اسکو کسی اور کا.."میں اپنی زندگی کو کیسے کسی اور کی ہوتے ہوئے دیکھ سکتا ہوں..." ابھی تک میں نے سوچا تھا کہ تمہاری اجازت سے ہی میں تمہیں اپنے آنگن میں لاؤں گا..." لیکن ایسے نہیں تو ایسے ہی سہی..."اس نے سڑک کے کنارے کھڑے ساڑھے چھ گھنٹے گزار دیے تھے...اس دوران اس نے کئی سگریٹ پھونک دی تھی..." اپنے اندر کا اضطراب کم کرنے کے لیے.." لیکن اسکا اضطراب کم نہیں ہو رہا تھا...." وہ جھٹکے سے اٹھا اپنی واچ میں وقت دیکھا " جو رات کے دس دکھا رہا تھا.."پھر اس نے اپنا موبائل کی طرف دیکھا جہاں پر سرفان کئی ساری کال آئی ہوئی تھی..."اسنے اپنا فون ڈیس بورڈ پر رکھا اور ایک ارادہ کرتا گاڑی کو شاہ حویلی کی طرف موڑ دی۔۔۔۔۔۔۔۔اب ڈھائی گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ شاہ حویلی کے پچھلے طرف کھڑا تھا.." رات کے ساڑھے بارہ ہو رہے تھے..." وہ گاڑی میں بیٹھ کر حویلی کے مکینوں کا سونے کا انتظار کرنے لگا.." کیونکہ ممبئی جیسے شہر میں سب ایک یا دو سے پہلے تو بلکل بھی نہیں سوتے تھے..." کبھی دو بجے تک حویلی کی لائٹ بند ہوئی تھی.." چاروں طرف اندھیرا چھا گیا..." وہ اپنی گاڑی سے اُترا اور اس نے حویلی کا جائزہ لیا... پندرہ منٹ اُسکو جائزہ لینے میں لگا "حویلی کی دیواریں بارہ فٹ لمبی تھی.." وہ آسانی سے اس دیوار کو فلانگ کر حویلی کے اس پار جا سکتا تھا..."کیوکی وہ دیوار بڑے بڑے پتھروں کی تھی.."جس پر وہ آسانی سے پیر رکھ کر چڑھ سکتا تھا۔۔"پہلے اُس نے اپنا دایاں پیر رکھا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے پتّھر کو مضبوطی سے تھام لیا۔۔" تھوڑا سا ایک ہاتھ سے اوپر کو جھٹکا دے کر دیوار کے درمیانی حصّے میں پہنچ گیا.." اس نے یہی ترکیب دو بار دہرائی تھی.." اب وہ دیوار پر کھڑا تھا.."دیوار کی چوڑائی چار فٹ چوڑی تھی.."اب وہ دیوار پر کھڑا تھا .."اس نے ایک ہی جست پے چھلانگ لگائی اور حویلی کے پچھلی طرف لان میں موجود تھا.."وہاں اندھیرا تھا.' ہلکی سی چاند کی روشنی پڑ رہی تھی.." جس کی وجہ سے وہ آسانی سے دیکھ سکتا تھا.." وہ آہستہ آہستہ اپنے قدم بڑھانے لگا.."ابھی وہ تھوڑی ہی دور چلا تھا"جب اسکو کسی کی سسکیوں کی آواز سنی.."اسنے چاروں اطراف نظر دوڑائی.." لیکن وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا.." پھر سے اسنے اپنے قدم بڑھا دیے.."وہ لان میں اس طرف آ گیا جہاں سے مائشا کے روم کا ٹریس دکھتا تھا.."اس نے ٹریس کی طرف دیکھا.." دشمن جان بغیر حجاب کے تیز ہواؤں سے اُڑتے ریشمی بال جو کچھ آگے کی طرف تھے تو کچھ پتلی سی کمر پر ابشار کی طرح لہرا رہے تھے.."سفید شلوار قمیض پہنے شانوں پر سفید دوپٹہ ڈالا ہوا تھا ،پر نور چہرا جو انجانے درد سے جھوجھتا ہوا نظر آ رہا تھا،ہری کانچ سی آنکھیں اشک بار تھی.." وہ آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی.."منہال کچھ لمحوں تک اسکو دیکھتے رہ گیا.."منہال کا دل بیقرار ہوا تھا اسکو دیکھ کر..." اُسے بیختیار ایک سونگ یاد آیا تھا "ارجیت سنگھ "کی آواز میں
"میری قسمت کے ہر ایک پنّے پے
میرے جیتے جی بعد مرنے کے,
میرے ہر ایک کل ہر ایک لمحے میں
توں لکھ دیں میرا اُسے..............
ہر ایک کہانی میں سارے قصّوں میں
دل کی دنیا کے سچّے رشتوں میں
زندگانی کے سارے میں حصّوں
توں لکھ دیں میرا اُسے..................
اے خُدا............ اے خُدا..............
جب بنا اسکا ہی بنا................
اے خُدا...........اے خُدا..................
جب بنا اسکا ہی بنا................
اسکا ہوں،اس میں ہوں،اُسے ہوں،اسی کا رہنے دیں
میں تو پیاسا ہوں ہے دریا وہ ذریعہ وہ جینے کا میرے.....
مجھے گھر دے گلی دے شہر دے اسی کے نام کے
قدم یہ چلے یا رُکے اب اسی کے واسطے.......... 
دل مجھے....... دیں اگر........درد دیں....... اسکا پر.....
اُسکی ہو...وہ ہنسی.. گونجے جو میرا گھر.....
اے خُدا............ اے خُدا..............
جب بنا اسکا ہی بنا................
اے خُدا...........اے خُدا..................
جب بنا اسکا ہی بنا................
اوہ ہ...............................................(میوزک)
میرے حصّے کی خوشی کو ہنسی کو توں چاہے آدھا کر....................
چاہے لے لیں توں میری زندگی پر یہ مُجھسے وعدہ کر.......
اُسکے اشکوں پے،غموں پے،دکھوں پے ہے اُسکے زخم پر.........
حق میرا ہی رہے ہر جگہ ہر گھڑی ہاں عمر بھر
اب فقط ہو یہی وہ رہے مجھ میں ہی
وہ جُدا کہنے کو بچھڑے نہ پر کبھی
اے خُدا............ اے خُدا..............
جب بنا اسکا ہی بنا................
اے خُدا...........اے خُدا..................
جب بنا اسکا ہی بنا................
اوہ ہ...............................................(میوزک)
میری قسمت کے ہے ایک پنّے پے
میرے جیتے جی بعد مرنے کے
میرے ہر ایک کل ہر ایک لمحے میں
تُو لکھ دیں میرا اُسے..............
اوہ ہ...............................................(میوزک)
اے خُدا............ اے خُدا...........
اے خُدا...........اے خُدا.................."
ارجیت سنگھ
اُسکو لگا یہ سونگ بس اسکے لیے ہی بنا ہو...."اس نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلا "اور پھر اِدھر اُدھر کسی چیز کی تلاش میں نظر دوڑائی ." کیونکہ اسکو اب کیسے بھی کر کے مائشا کے روم کے ٹریس پر جانا تھا...."جب اسکو اپنی مطالبہ چیز مل گئی تو وہ جلدی سے اُسکے پاس گیا تھا.."شائد وہ چیز سیڑھی تھی..." اس نے وہ سیڑھی اٹھائی اور دائیں طرف.."جہاں سے مائشا اُسکی دیکھ نہیں سکتی تھی.." کیونکہ وہاں اندھیرا ہونے کے باعث کوئی بھی اسکو دیکھ نہیں سکتا تھا...."وہاں پر لگائی .." اب وہ آہستہ آہستہ سیڑھیوں پر اپنے قدم مضبوطی سے جامائے چھڑنے لگا..آخری سیڑھی پر آ کر اُس نے ریلنگ پکڑی اور اوپر کو ہلکا سا جھٹکا دے کر وہ ٹریس پر آ گیا تھا....." تبھی اسکو مائشا آواز سنائی دی...." جو کچھ اُس نے سنا....." اسکا دل بیختیاری سے ایک لے پر دھڑکنے لگا......اُسکی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا تھا یہ سن کر......وہ کچھ بولتا کہ اسنے دیکھا مائشا چکّر کھا کر گرنے والی تھی.." جب اس نے اسکو اپنا سہارا دے دیا تھا...."اور پھر وہ اسکو اپنے بازوؤں میں بھرے اندر کمرے میں لے آیا تھا......منہال نے پھر کبھی مائشا سے بات کرنے کا چھوڑ کر اسکو بیڈ پر آرام سے لیٹا کر وہاں سے جیسے جیسے وہ آیا تھا واپس چلا آیا تھا..." وہ حویلی کے پچھلی لان میں تھا .." اندھیرا ہونے کی باعث وہ آہستہ آہستہ اپنے قدم اٹھا رہا تھا..." ابھی وہ کچھ دور ہی چلا تھا جب اسکو کسی کی پڑچھائی دکھائی دی..." اُسکو حیرت ہوئی تھی رات کے اس پہر حویلی میں کوئی جاگ رہا تھا.."وہ جلدی سے پیڑ کے پیچھے چھُپ گیا..." وہ جو کوئی بھی تھا.."پینتالیس سال کی عمر کی تھی وہ ایک بڑی سی چادر اوڑھے ہوئے تھی..."منہال کو اتنا تو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ عورت تھی..."اس وقت حویلی میں کون جاگ سکتا ہے....؟ اُسکے ذہن میں الگ الگ سوال اٹھ رہے تھے .."جو کہ اسکے پاس نہیں تھے جواب.."وہ شخص ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں چل رہی تھی " جیسے اسکو پکڑ جانے کا خدشہ ہو.."وہ اب حویلی کی پچھلی طرف جا رہی تھی..." منہال نے اسکا پیچھا کرنا شروع کیا تھا...." وہ عورت اب حویلی کے پچھلی طرف بنے ایک تہہ خانے میں گئی تھی..." منہال بھی آہستہ آہستہ سے اُسکے پیچھے جا رہا تھا...."جب وہ عورت اس تہہ خانے میں چلی گئی تو منہال بھی اُسکے اندر چلا آیا تھا..." یہ تہہ خانہ ایسا لگتا تھا جیسے کافی عرصے سے استعمال میں نہیں تھا..." ہر طرف مکڑی کے جالے لگے ہوئے تھے.." ٹوٹا پھوٹا سامان اِدھر سے اُدھر بکھرا پڑا تھا..."ہر طرف دھول ہی دھول تھی..." اسکو دھول سے الرجی تھی.." اُسکو کھانسی اٹھی .." جس کو اسنے اپنا گلا گھونٹ کر بمشکل دبائی تھی.."ایک پل کو وہ عورت رُکی اور اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا .."جیسے اسکو لگا ہو کہ کوئی اسکا پیچھا کر رہا ہے." وہ جلدی سے ایک دیوار کے سہارے سے لگ کر چُھپ گیا تھا..." جب اس عورت کو تسلّی ہو گئی کہ کوئی نہیں ہے تو وہ آگے کو چل دی تھی..."اب وہ ایک بڑے سے دروازے کے سامنے کھڑی تھی..." اس عورت نے دروازہ کھولا اور اس کے اندر چلی گئی...." منہال بھی اُسکے پیچھے چلا گیا تھا..."اس عورت نے اس روم کا بلب جلایا تھا.."بلب کے آن ہوتے ہی ہلکی ہلکی روشنی چاروں طرف پھیل گئی تھی..."اور منہال کی آنکھوں نے جو دیکھا تھا..."اسکو اپنی آنکھوں پر بلکل بھی یقین نہیں ہوا تھا..............
*********************
یہ منظر ہے لندن کے ایک رہائش پذیر سب سے مہنگے اریا کا...بڑی بڑی سٹریٹ چاروں اطراف سٹریٹ کے کناروں پر بڑے بڑے درخت لگے ہوئے تھے.....یہاں پر بڑے بڑے بنگلے تھے.."ایسا لگتا تھا"جیسے یہ لندن کا سب سے مشہور اور مہنگا اریا ہو.." ان بنگلوں میں سے ایک بنگلہ اتنا خوبصورت تھا بہت زیادہ.." سنگ مرمر سے بنا یہ بڑا سا بنگلہ.."جو گولڈن اور لائٹ گولڈن رنگ کا تھا.."انیٹر ينس گیٹ سے لیکر درمیانی حصے تک بہت بڑا لان تھا.."جس میں مختلف قسموں کے درخت اور پھول لگے تھے..."دائیں طرف پورچ تھا" جس میں دو کالے رنگ کی مہنگی مہنگی گاڑیاں کھڑی تھی.."بائیں جانب بہت بڑا سوئمنگ پول تھا.."اب آتے بنگلے کی طرف.."اس بنگلے کی ساری کھڑکیاں دروازے اور کچھ وال کانچ کی تھی.."وہ دو منزلہ بنگلہ تھا.."اور اس اریا کہ سب سے مشہور شخص کا بنگلہ.."رحمان صدّیق".."اس بنگلے کو سب رحمان ویلا کے نام سے جانتے تھے.."رحمان صاحب" لندن کے مشہور ڈاکٹروں کے سینیئر تھے.." عادت کے بہت نیک،سب کی مدد کرنے والے.."ویسے تو وہ دہلی کے تھے.."لیکن کچھ سال اُنہونے ممبئی میں اپنی ایجوکیشن کی تھی.."اور پھر وہ آگے کی پڑھائی پوری کرنے کے لئے لندن آ گئے تھے.."انکی شادی انکی خالہ کی بیٹی نویرہ سے ہوئی تھی.."وہ بھی ایک سرجن تھی.."اُنکے لندن میں اپنے ہی دو بہت بڑے بڑے ہسپتال تھے اور مشہور بھی....(رحمان صدّیق اور انکی جوجہ نویرہ بیگم) کے صرف ایک ہی بیٹی تھی..اور وہ تھی "علینہ رحمان صدّیق" علینہ اپنے بابا کی لاڈلی اور ماما کی جان تھی.."وہ بھی ڈاکٹرز کے ہے پڑھائی کر رہی تھی..."رحمان صاحب اور سلمان صاحب کی بہت اچّھی دوستی تھی."کیونکہ رحمان صدّیق اور سلمان شاہ دونوں نے ہی لندن میں ایک ہی یونیورسٹی میں اپنی باقی کی ایجوکیشن کمپلیٹ کی تھی.."ہاں بس دونوں کے ڈیپارٹمنٹ الگ الگ تھے..."سلمان شاہ جب انڈیا سے آئے تھے تو انکے پاس کچھ بھی نہیں تھا.."اس سال رحمان بھی ہوسٹل میں رہتا تھا"اور اتفاق سے سلمان شاہ کو وہ ہی اپنا روم میٹ ملا تھا.."اور دونوں کی یونیورسٹی ایک ہونے کی وجہ سے دونوں ساتھ ہی یونیورسٹی جاتے بھی اور اتے بھی تھے.."دھیرے دھیرے انکی دوستی بڑھتی گئی....."اور انکو یہ دوستی بہت ہی گہری ہو گئی تھی....."رحمان اور جہانگیر نے مل کر اپنی دوستی کا حق چکایا تھا.."جب سلمان شاہ مصیبت میں تھے "تب جہانگیر نے اسکو رہنے کی پناہ گاہ دی تھی.."اور اب "رحمان نے اسکا بز نس میں ساتھ دیا تھا.."اور کچھ ہیلپ شاہنواز راجپوت ( جہانگیر کے بابا) نے کی تھی..."اور آج جو مقام سلمان شاہ کا تھا وہ اپنے دوستوں اور اس رب کی ہی بدولت تھے..."چلو یہ تو ہوا رحمان صاحب اور انکے دوستوں کا تعارف.."اب آتے بنگلے کے اندر.."اندر سے بھی بنگلہ خوبصورت تھا.."لاؤنج میں صوفے پڑے تھے..."لاؤنج کے بائیں جانب کچن تھا"اور اُسکے ساتھ ہی بڑا سا ڈائننگ ہال تھا.."بائیں جانب ایک بہت بڑی لائبریری تھی.."جس میں علینہ آدھا دن تو وہیں گزارتی تھی.."علینہ بیٹا علینہ بیٹا....نویرہ بیگم کب سے علینہ کو آوازیں دے رہی تھی.."لیکن پتہ نہیں ہماری علینہ صاحبہ تو کوئی اور ہی دنیا میں گُم تھی....."وہ کیا کہتے ہے.."ہاں یاد آیا.."گم ہے کسی کے پیار میں"یہی حال ہماری علینہ صاحبہ کا تھا.."جب سے وہ انڈیا سے واپس آئی تھی "اسکا کسی بھی چیز میں دل نہیں لگ رہا تھا.."ہے چیز سے دل اچاٹ تھا.."دل کرتا وہ کیسے بھی کرکے اپنے دشمن جانِ کے پاس چلی جائے....." تیسری آواز پی وہ اپنے خیالوں سے باہر نکلی تھی.."کیونکہ نویرہ بیگم نےاب کی بار اُسکے پاس ہی آ کر آواز دی تھی۔۔۔علینہ کہاں گم ہو.."؟بھئی اتنی دیر سے آواز لگا رہی ہوں لیکن مزال ہے ہے جو تم نے سنی ہو.."نویرہ بیگم علینہ کو گھورتی بولی..." کیا ماما آپ بھی...؟ بتائے کیا کام تھا..."وہ بیزاری سے اپنی ماما کو دیکھتی بولی.."اسکا یہ انداز نویرہ بیگم کے لیے نیا تھا.."تو انہوں تشویش سے اسکو دیکھا .."اور پھر بولی کیا بات ہے بیٹا....؟ کچھ پریشان لگ رہی ہو..؟کچھ ہوا ہے کیا.."طبیعت تو ٹھیک ہے آپکی.."میں بہت بار نوٹ کر چکی ہوں آپ کو.."جب سے آپ انڈیا سے واپس آئی ہو..."کہی کھوئی کھوئی سی رہتی ہو...؟نویرہ بیگم نے ایک ہی ساتھ بہت سارے سوال کر ڈالے تھے...."اوہ ہ ہ ماما..."آپ بھی نہ .."کچھ بھی تو نہیں .. بس ایسے ہی پڑھائی کی ٹینشن ہے.."اسکو اپنی ماما کی اپنے لیے فکر مندی دیکھ کر بہت پیار آیا تھا اپنی ماما پر.."وہ بائیں ڈالتی ہوئی بولی.."یہی بات ہے نہ.."اُنہونے اسکو کن آنکھوں سے دیکھا تھا.."جیسے ابھی بھی انکو یقین نہیں آ رہا ہو.."اُنکے یوں دیکھنے پر علینہ نے اپنی نظریں جھکائی اور بولی ہاں ماما یہی بات ہے"اوکے ٹھیک ہے میں مان لیتی ہوں"نویرہ بیگم بولی.."اچھا ماما کوئی کام تھا کیا آپ کو...؟علینہ نے شکر کا سانس لیا تھا.."اور پھر اپنی ماما سے پوچھا ..."ہاں بیٹا"وہ دراصل آپکا ایک رستہ آیا ہے.."لڑکا بہت اچھا ہے.."ڈاکٹر ہے.."اُنکا ممبئی میں اپنا ہسپتال ہے.."اور سب سے بڑی بات لڑکے نے آپ کو دیکھا ہوا ہے.."آپکو اپنی کزن کی شادی تو یاد ہے.."بس وہی آپ کو دیکھا ہے..... علینہ کی تو سانس ہی رک گئی تھی اپنی ماما کی بات سے .."ایک پل کو لگا اب وہ سانس نہیں لے پائیگی..."ماما کیا نام ہے انکا.."اسنے ڈرتے ہوئے پوچھا.."اسکو لگا کیا پتہ وہی دشمن جان ہو.."سرفان شاہنواز راجپوت..."اُسکی ماما نے بتایا"اور اسکو وہ لڑکا یاد آیا تھا.." کو اُسکی کزن کی شادی میں اُسکے پیچھے لگ گیا تھا.."اس لڑکے کا نام بھی تو سرفان شاہنواز تھا....."وہ کچھ نہیں سن رہی تھی.."اُسکی ماما نے کیا بولا کیا نہیں اسکو کچھ بھی سنائی نہیں دیا.."اُسکی سوچ مفلوج ہو کر رہ گئی تھی.."آنکھوں میں بیختیار آنسوں اُمڑ آئے تھے.."وہ وہاں سے اٹھ گئی تھی..."اُسکے یوں اٹھنے پر پہلے تو نویرہ بیگم کو حیرت ہوئی پھر انکو لگا کچھ زیادہ ہی پڑھائی کا اسٹریس ہے.."اس لیے چلی گئی ہے...یہ سوچ کر نویرہ بیگم بھی وہاں سے کچن میں چلی گئی تھی.."کیونکہ اُنہونے چولہے پر بریانی دم کرنے کے لیے رکھی ہوئی تھی۔۔۔
************************
ماضی»»»»»»»»
بابا کے انتقال کے بعد مائشا نے ہو اپنوں کے وہ روپ دیکھے تھے ۔۔" جو ناقابلِ یقین تھے.." جب اسکو سب سے زیادہ اپنوں کا ساتھ چاہئے تھا.." وہیں سب چپ کا قفل اوڑھ کر بیٹھ گئے تھے.." دادو کو دو دو بیٹوں کی جدائی کا غم کھائے ہوئے تھا.." ملک شاہ جیسے بس کام کام اور کام تک ہی محدود ہو کر رہ گئے تھے.." حسن شاہ نے دہلی کو ہی اپنا رہنے کا ٹھکانہ بنا لیا تھا.." شہزین شازیب ان دونوں کو تو کسی سے سروکار نہیں تھا.."ہاں شہزین کبھی کبھی اسکا حال ہہوال پوچھ لیا کرتا تھا.." لیکن صرف کبھی کبھی.." صائمہ بیگم کو تو اس پر ظُلم تشدّد سے وقت ملتا تو وہ کچھ اور تب کرتی.." بچا عالیان ملک شاہ."ہاں عالیان ملک شاہ نے اسکو ایک دوست کا سہارا دیا تھا.."اور اپنا دوست ہونے کا حق بھی نبھا رہا تھا..."مائشا نے چپ کا لبادہ اوڑھ لیا تھا..." وہ نہ تو کسی سے زیادہ بولتی تھی اور نہ ہی کسی کے ساتھ زیادہ بیٹھتی تھی..." ہاں ایک چیز جو مائشا کے اندر سب نے نوٹ کی تھی.."وہ تھی کہ وہ اللہ سے زیادہ نزدیک ہو گئی تھی.."اس نے اپنے بابا کی جدائی پر صبر سے کام لیا تھا." یا شائد اُس نے اسکو اپنی آزمائش سمجھ کر قبول کر لیا تھا....." کمال شاہ کے چھے ماہ بعد عالیان بھی لندن چلا گیا تھا اپنی سٹڈی کمپلیٹ کرنے کے لیے.." اب صحیح معنوں میں وہ اکیلی پڑ گئی تھی..." جس مائشا نے کبھی اپنے آگے کا برتن تک اٹھا کر نہیں رکھا تھا.." اب اس مائشا کی ذمّے حویلی کا سارا کام آ گیا تھا.." اُسکی زندگی نے ایسا پلٹا کھایا تھا کہ اُسکی زندگی کو بدل کر رکھ دیا تھا......" صبر،شکر،حسّاس پن اور سمجھ داری تو اُس میں قوٹ قوٹ کر بھری تھی....." کوئی یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ یہ وہی مائشا ہے "جو کبھی کمال شاہ کے زمانے میں ہوا کرتی تھی....."صائمہ بیگم نے جو تصدّد اس پر کیے تھے.." وہ ہر کسی میں سہنے کی طاقت نہیں تھی.." لیکن مائشا کمال شاہ نے اُس پر بھی یہ سوچ کر صبر کر لیا تھا کہ اللہ سب دیکھ رہا ہے.."وہ کبھی اس پر اُسکی برداشت سے زیادہ نہیں آزمائے گا...."ایک دن تو حد ہی کر دی تھی صائمہ بیگم نے.." اس دن رات کے تین بج رہے تھے۔۔" آسمان میں گھنے سیاہ بادل، کڑکتی بجلی اور تیز طوفانی بارش.." یہ وہی موسم تھا جب دو سال پہلے اُسکے بابا کے ایکسیڈینٹ پر تھا..." ایسے میں وہ لکھنے میں محو تھی.. کیونکہ اسکو پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کا بھی بہت شوق تھا.."اکثر وہ رات میں لکھا کرتی تھی.." جب صائمہ بیگم نے اسکو آواز دی تھی.." وہ بھاگتی ہوئی باہر آئی تھی.."جب اُسکی ٹکّر شہزین سے ہوئی" اور پھر جو ہوا اُسکے بعد اُسکی زندگی نے ایک بار پھر پلٹا کھایا تھا.." ہاں دو سال بعد مائشا کمال شاہ کی زندگی نے ایک بار پھر پلٹا کھایا تھا....."شائد یہی اللہ نے اُسکی قسمت میں لکھا تھا..." مائشا کمال شاہ کی زندگی میں اس واقعے کے بعد دو شخص آئے تھے..." ایک بڑی بہن بن کر تو دوسرا اُسکی محبّت بن کر....."بہن بن کر نور حسن شاہ آئی تھی.." اور محبّت بن کر منہال سلمان شاہ آیا تھا....."وہ اپنے ہر حق نبھا رہی تھی..." لیکن محبّت کا حق وہ چاہ کر بھی نہیں نباہ سکتی تھی...."آگے کا آپکے سامنے ہے جو مائشا اور منہال کی زندگی میں ہونے والا تھا.."کیا منہال مائشا کو کسی اور کا ہوتے ہوئے دیکھتا رہ جائے گا.."يا پھر وہ اپنی محبّت کو پا لیگا..."یہ تو وقت ہی بتائے گا.."کیونکہ وقت سے بڑا ہتھیار کچھ نہیں ہوتا.."وقت وہ شے ہے."جو زخم کو بھر دیتا ہے.."جو یہ بتا دیتا ہے " کہ کون اپنا اور کون اپنا ہو کر بھی پرایا ہے..."بس ہم کو وقت کا صبر سے انتظار کرنا چاہئے.."کیونکہ ایک وقت اپنا ہوتا ہے تو ایک وقت دوسروں کا ہوتا ہے.."لیکن ہوتا جورور ہے۔۔" وہ کیا کہتے ہے ..؟ ہاں یاد آیا.." اپنا بھی تو کبھی ٹائم آئے گا..."
                *"کبھی ٹائم تمہارا ہوگا
                کبھی ٹائم ہمارا بھی ہوگا
               لیکن مایوسی نہیں ہم کو
              کیونکہ اپنا بھی ٹائم آئے گا"*
ملیحہ (مجیبہ) چودھری
**********************
حال»»»»»»»»
مائشا کو بہت تیز بخار تھا.."آنکھیں اُسکی بخار کی وجہ کھل نہیں رہی تھی.."وہ رات صرف بیہوش ہوئی تھی.."لیکن اب بخار کی شدت سے وہ تپ رہی تھی.."نہ وہ آج فظر کی نماز پڑھ پائی تھی...دادو اُسکے سرہانے بیٹھی بار بار اُسکے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹی رخ رہی تھی.."ملک شاہ اور حسن شاہ وہی اُسکے روم کے صوفے پر بیٹھے تھے.."جب ایک ملازمہ کے ساتھ اُنکا فیملی ڈاکٹر آیا..."اس نے وہاں پر بیٹھے سب ہی نفوس کو سلام کی اور پھر مائشا کو دیکھ نے لگا.." امّاں.."انکو تو بہت تیز بخار ہے بلکہ انکا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے.."انکی حالت بہت خراب ہے.."آپکو ابھی ٹورنٹ ہسپتال میں ایڈمٹ کروانا چاہیے.."کیونکہ ذرا سی دیر بھی انکو خطرے سے خالی نہیں ہے..."آپ جلدی سے انکو ہسپتال لے جائے.."ڈاکٹر سالار نے دادو کی طرف تشویش سے دیکھتے ہوئے کہا تھا...."لیکن ڈاکٹر نروس بریک ڈاؤن کی وجہ.."اب کی بار حسن شاہ نے پوچھا.."اُنکے چہرے پر پریشانی چھلک رہی تھی."
انھونے اسٹریس لیا کسی چیز کا"شائد وہ چیز انکو کافی عزیز ہو۔۔۔"ڈاکٹر نے جیسے اندازہ لگایا تھا..."ٹھیک ہے ڈاکٹر ہم ابھی جاتے ہے.."یہ بول کر حسن شاہ کھڑے ہو گئے تھے.."ملک شاہ نے شہزین کو فون کر دیا تھا.."اب شاہزیب اور شہزین دونوں ہے آفس سے آ گئے تھے.."مائشا کو ہسپتال میں ایڈمٹ کر دیا تھا.."شاہزیب نے سرفان کو پہلے ہی کال کر دی تھی.." مائشا کا ٹریٹمنٹ چل رہا تھا.."لیکن اُسکی طبیعت میں بلکل بھی سدھار نہیں آ رہا تھا.."سب کو ہی بہت فکر تھی.."سوائے شاہزیب کو.."کیونکہ اسکا تو کام اور بھی آسان ہو جانا تھا"اگر مائشا خدا خالق کو پیاری ہو جاتی.."کتنے ظالِم ہوتے ہیں نہ کچھ لوگ.."جو مال کے چکّر میں یہ بھی نہیں سوچتے "کون اپنا ہے...؟"اور کون پرایا...؟"ایسے ہی لوگوں میں سے شاہزیب تھا..."اسکو بھی مال چاہئے تھا.."اسکو مال کی وجہ سے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا..."
چار گھنٹے ایسے ہی گزر گئے.."لیکن مائشا کی حالات ایسی کی ایسی ہی تھی.."بلکہ اور زیادہ بگڑ رہی تھی...."ڈاکٹرز کی پوری کی پوری فوج لگی ہوئی تھی.."ساڑھے چار گھنٹے بیت جانے کے بعد تھوڑی دیر کو مائشا کو ہوش آیا تھا.."لیکن ابھی بھی وہ اپنے حواس میں نہیں تھی.."آہستہ آہستہ سے وہ کچھ بڑ بڑا رہی تھی.."صرفان جو.."اُسکی انجکشن لگانے والا تھا.."جب اس نے مائشا کے لب ہلتے دیکھے تو وہ تھوڑا سا جھکا.."مقصد صرف اتنا تھا کہ وہ مائشا کی بڑ بڑاہٹ سن سکے..." بابا"میں اُسکے بغیر نہیں جی سکتی..."بابا م میں من.... منہا...ل...ب ہت م...ح..بّت... ک کرتی ہوں.."اُسکی زبان بیہوشی کی وجہ سے لڑکھڑا رہی تھی..." پہلے تو صرفان کو کچھ سمجھ نہیں آیا.."لیکن جب اسکو سمجھ آیا تو.."اُسکا خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا..."اب سرفان کی بھی جی جان سے پوری کوشش تھی کہ وہ بلکل ٹھیک ہو جائے..."وہ سیدھا ہوا اور پھر اسکو انجکشن لگا کر باہر آ گیا تھا...."اسکو باہر دیکھ کر حسن شاہ "جلدی سے اُسکی طرف لپکے تھے..." بیٹا اب کیسی ہے.."مائشا بیٹے کی طبیعت.."اُنہونے پوچھا.."انکل
ابھی بھی وہی حالت ہے.."انکو کسی بات کا بہت اسٹریس ہے.."کیا گھر پر کوئی بات وغیرہ.........؟اپنی بات کو ادھوری چھوڑ کر اس نے ان سب کی طرف دیکھا.."ایک پل کو شاہزیب کا چہرا سفید پڑ گیا تھا.."جو سرفان کو نظروں سے اوجھل نہیں رہا..."اور باقی سب پریشان تھے..."نہیں بیٹا ایسی تو کوئی بات نہیں ہے.."بلکہ ابھی ایک ہفتے بعد تو شاہزیب اور مائشا کا نکاح ہے.."ہاں وہ چپ چپ سی رہنے لگی تھی.."لیکن گھر پر کوئی ایسا اسو نہیں ہوا.."حسن شاہ نے اسکو ساری انفارمیشن دی تھی....."اچھا.."! لیکن شاہزیب تم نے تو مجھے اپنے نکاح کے متعلق کچھ نہیں بتایا.."اب سرفان نے شاہزیب سے حیران ہوتے پوچھا.."اُسکی بات پر شاہزیب سٹپٹايا "جیسے اُسکے دل میں کوئی چور ہو.." و وہ میں بتانے ہی والا تھا.."بس ایک دو دن میں تمہیں کارڈ دیتا.."اس سے پہلے یہ ہو گیا..."شاہزیب نے اپنی جھوٹی دلیل دی.."اوکے اچھا.."کوئی بات نہیں.."ہوتا ہے..اچھا آپ سب دعا کریں.."بس مائشا کو آپکی دعاؤں کی شدید ضرورت ہے.."اور باقی اللّٰہ کی مرضی..."وہ یہ بول کر وہاں سے چلا گیا تھا....."اب اسکا ارادہ منہال کو فون کرنے کا تھا.."
وہ اپنے آفس میں آیا.."اور سب سے پہلے اس نے منہال پر کال ملائی..." جو بہت ساری بیل کے بعد بلا آخر اٹھا لی گئی تھی...."السلام وعلیکم.." کہاں ہو تم..؟ جلدی سے ہسپتال پہنچو..." یہ بول کر اس نے کال کاٹ دی.."منہال کی بات سنے بغیر.."اُسکے پاس ابھی زیادہ وقت نہیں تھا..."وہ پھر سے کچھ ضروری سامان لئے اُس روم میں چلا گیا تھا.."جہاں مائشا کو شفٹ کیا ہوا تھا....
***********************
So Here is the 13 episode..
Do vote...
Plzzzzz give us your reviews too.....
😂😂😂😂😂😂😂


   1
0 Comments